قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے : اگر تم میری نعمتوں پر شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں مزید دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بہت سخت ہے(ابراہیم:7)۔یعنی جس طرح شکر گزاری پر نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اسی طرح ناشکری پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سخت عذاب اور سزا بھی دی جاتی ہے۔اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک اور ضابطہ بھی بیان فرمایا ہے کہ جو نعمتیں خود انسانوں کی فرمائش پر انہیں دی جاتی ہیں، ان کی ناشکری پر عذاب بھی سب سے زیادہ سخت ہوتا ہے۔ اس بات کا عملی تجربہ مجھے کچھ عرصہ پہلے ہوا جسے آج قارئین کی خدمت میں تحریر کر رہا ہوں۔
ہمارے ایک عزیز تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمام دنیاوی نعمتوں سے نوازا ہوا تھا۔فرمانبردار‘صالح اور صالحیت والی اولاد‘مال و دولت کی فراوانی غرض وہ ایک قابل رشک زندگی گزار رہے تھے‘بظاہر انہیں دیکھ کر ہر شخص یہ تمنا کرتا کہ کاش یہ تمام نعمتیں انہیں بھی نصیب ہوں۔کارباری معاملات میں ان کا ذہن بھی خوب چلتا تھا‘معاملات کو بھی بہترین انداز کے ساتھ حل کر لیتے تھے مگر ان میںایک کمی تھی جس کا انہیں کبھی احساس تک نہ ہوا اور وہ ان کا ’’ناشکری‘‘ کا جذبہ تھا۔
ان سے جب بھی کوئی ملاقات کرتا‘ان کی اولاد کے اخلاق اور صلاحیتوں کی تعریف کرتا تو وہ عام لوگوں کی طرح خوش ہونے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکر بجا لانےکے بجائے شکوہ کا اظہار کرتے اور لوگوں کے سامنے اپنی اولاد کے عیب گنوانے شروع کر دیتے ۔
شکوے اور شکایتوں کےانبار
ان سب معاملات کے باوجود ان کی اولاد ان کے عزت‘ ادب ‘ احترام میں کمی نہ آنے دیتی مگر وہ کسی کو خاطر میں نہ لاتے اور بات بات سب کے سامنے انہیں نکمے‘ نا اہل اور ایسے کئی ناگوار الفاظ سے پکارتے اور انہیں لالچی کہتے جبکہ ان میں ایسے عیب موجود نہ تھے۔آخر باپ کے اس مسلسل رویہ نے انہیں بدل ڈالا ‘ انہوں نے باپ کا پہلے جیسا احترام اور اکرام کرنا چھوڑ دیا‘جیسا باپ اولاد کے متعلق شکر کے بجائے شکوہ کرتا تھا ‘ اولاد کے اندر وہ عیب پنپنا شروع ہو گئے۔
بات صرف یہاں تک ختم نہ ہوئی۔ان کا کاروبار خوب چلتا تھا‘آمدن بھی خوب‘زندگی کی تمام آسائشیں ان کے پاس موجود تھیں مگر وہ ہر وقت مایوسی کا شکار دکھائی دیتے ‘تنگی رزق اور وسائل کی کمی کا اظہار کرتے۔ان کے قریبی لوگ حتیٰ کے اولاد بھی انہیں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کی طرف متوجہ کرتے اور اس پر شکر گزاری کا کہتے مگر ان کا ناشکری کا جذبہ قائم رہتا اور ایسے لوگوں کی مثالیں دیتے جن کا انداز زندگی ان سے زیادہ بہتر اور پُر آسائش تھا مگر اپنے سے نچلے درجے کے طبقے پر ان کی نظر نہ آجاتی جبکہ وہ اپنے رشتہ داروں میں ایک صاحب حیثیت شخص تھے۔ان کی ناشکری کے بولوں نے اثر دکھانا شروع کیا‘کاروبار زوال کا شکار ہو گیا‘رزق کی تنگی جس کا وہ اظہار کرتے تھے اس کا شکار ہو گئے۔آہستہ آہستہ ان کی دکان‘مکان اور کاروبار سب ختم ہو گیا‘لاکھوں کے مقروض اور وہ در بدر ہو گئے اور ایسی مثال بن گئے کہ لوگ ان کو دیکھ کر عبرت حاصل کرتے ہیں۔
قارئین! نعمتوں پر شکر کرنا زندگی کو سہل بنانے کا ایک ایسا خوبصورت اصول ہےجن پر عمل پیراں ہو کر انسان ایک کامیاب اور خوشگوار زندگی گزار سکتا ہے۔آئیں!یہ فیصلہ کریں اور شکوہ کے بجائے شکر کو زندگی کا حصہ بنائیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں